حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ایک مرتبہ تقسیمِ ہند سے پہلے کی ریاست پٹیالہ میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے، دورانِ خطاب مجمع سے ایک سردار (بلیر سنگھ نامی سپرنٹنڈنٹ جو کہ اس وقت وردی میں بھی تھا) اسٹیج پر چڑھ کر شاہ صاحب سے پوچھنے لگا، شاہ صاحب میں نے سُنا ہے کہ آپ سید ہیں۔ شاہ جی نے جواب دیا: بھائی میں تو سیدوں کی جوتیاں سیدھی کرنے والا ہوں۔ سردار جی نے پھر پوچھا کہ شاہ جی میں نے سُنا ہے کہ جو سید ہو اُسے آگ نہیں جلاتی؟
مجمع میں شور برپا ہوگیا۔
چنانچہ شاہ جی نے سردار بلیر سنگھ کے آگے اپنے دونوں ہاتھ کردیئے۔
اُس نے اپنے ایک محافظ سے کہا کہ آگ لیکر آؤ۔ وہ آگ لیکر آیا تو سردار نے آگ سے دہکتے انگارے شاہ جی کے ہاتھوں پر رکھ دیئے۔ شاہ صاحب انگارے دونوں ہاتھوں میں لیئے کھڑے رہے۔
سارا مجمع حیران رہ گیا۔
تقریباً پانچ منٹ بعد سردار نے کہا کہ اب انگارے پھینک دیں اور مجھے اپنے ہاتھ دکھائیں۔
شاہ جی نے دونوں ہاتھ سردار بلیر سنگھ کے آگے کردیئے
وہ فوراً ہاتھوں کو چوم کر شاہ صاحب کے گلے لگ گیا اور کہا کہ
"شاہ جی! میرے سینے میں بھی آگ لگی ہوئی ہے، خدا کیلیئے اُسے بھی ٹھنڈا کردیں اور مجھے کلمہ پڑھا دیں۔"
شاہ جی نے سردار کو کلمہ پڑھایا اور وہ مسلمان ہوگیا۔
سبحان اللہ
نوٹ: آج بھی اگر نسبت کے ساتھ ساتھ"اعمال"بھی اُسی نسبت کے موافق ہوں تو اللہ غیر مسلموں کی ہدایت کیلیئے"کرامات"بخش سکتے ہیں۔
Comments
Post a Comment