صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت
قرآن کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت:
قرآن مجید کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم کے صحابہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
" مہاجرین اور انصار میں سے قبول اسلام میں پہلے سبقت کرنے والے اور وہ لوگ جو اچھے طریقے سے ان کے پیروکار ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہی ہے بڑی کامیابی۔"
(سورۂ التوبۃ: 09: آیت نمبر: 100)
اس آیت میں صرف مہاجرین و انصار، صحابہ کے دونوں گروہوں ہی کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے بلکہ ان کے بعد آنے والے لوگوں کی بھی فضیلت بتلائی گئی ہے بشرطیکہ ان کے اندر ایک خوبی ہو گی اور وہ یہ کہ وہ مذکورہ دونوں قسم کے صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔ صحابہ کی کتنی عظیم فضیلت اور قدرومنزلت ہے کہ ان کے پیروکاروں کو بھی انتا اونچا مقام عطا کر دیا گیا جس کی وضاحت اس آیت میں ہے:
" محمد (صلى الله عليه وآله وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں، وہ کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت مہربان ہیں، آپ انھیں رکوع و سجود کرتے دیکھیں گے، وہ اللہ کا فضل اور (اس کی) رضا مندی تلاش کرتے ہیں، ان کی خصوصی پہچان ان کے چہروں پر سجدوں کا نشان ہے، ان کی یہ صفت تورات میں ہے اور انجیل میں، ان کی صفت اس کھیتی کے مانند ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا اور وہ (پودا) موٹا ہو گیا، پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہو گیا، کسانوں کو خوش کرتا ہے، ( اللہ نے یہ اس لیے کیا) تاکہ ان (صحابہ کرام) کی وجہ سے کفار کو خوب غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے، مغفرت اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔"
(سورہ الفتح: 48: آیت نمبر: 29)
اور دوسری آیت میں ہے:
"البتہ تحقیق اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، چنانچہ ان کے دلوں میں جو (خلوص) تھا، وہ اس نے جان لیا، تو اس نے ان پر طمانیت وتسکین نازل کی اور بدلے میں انھیں قریب کی فتح دی۔"
(سورۂ الفتح: 48: آٰت نمبر: 18)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان میں شریک تمام صحابہ کو پکّا مومن قرار دیا ہے اور ان لوگوں کی تردید کی ہے جو ان کے دلوں میں نفاق کا جھوٹا دعوٰی کرتے ہیں۔ دیگر متعدد قرآنی آیات ہیں جن میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے۔
احادیث رسول میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت:
احادیث میں بھی صحابہ کے بکثرت فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:
"جس نے میرے صحابہ پر سب و شتم کیا، (انھیں جرح و تیقید اور برائی کا ہدف بنایا) تو اس پر الله کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔"
(المعجم الکبیر للطبرانی، 142/12، والسلسلۃ الصحیحۃ: 446/5، حدیث: 2340)
دوسری حدیث میں فرمایا:
" میرے صحابہ پر سبّ وشتم نہ کرو (انھیں جرح و تنقید اور برائی کا ہدف نہ بناؤ، انھیں اللہ تعالیٰ نے اتنا بلند رتبہ عطا فرمایا ہے کہ ) تم میں سے کوئی شخص اگر اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ کسی صحابی کےخرچ کردہ ایک مُدّ (تقریبا 6 سو 25 گرام ) بلکہ آدھے مُدّ ـ3 سو 12 گرامٰ کے بھی برابر نہیں ہو سکتا۔"
(صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی صلى الله عليه وآله وسلم ، باب (5)، حدیث: 3673، صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، باب تحریم سب الصحابۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، حدیث: 2540، 2541)
ایک اور حدیث میں نبی صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:
"ستارے آسمان کی حفاظت کا ذریعہ ہیں، جب ستارے ختم ہو جائیں گے (قیامت کے دن) تو آسمان پر وہ وقت آ جائے گا جس کا اس سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ اور میں اپنے صحابہ کی حفاظت کا ذریعہ ہوں، جب میں (دنیا سے) چلا جاؤں گا تو صحابہ وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ان سے کیا جاتا ہے اور میرے صحابہ میری امت کی حفاظت کا ذریعہ ہیں، جب میرے صحابہ ختم ہو جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ان سے کیا جاتا ہے۔"
(صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، حدیث: 2531)
اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود کو امت کے لیے حفاظت اور خیر و برکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا:
" ایک وقت آئے گا ، کچھ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرے گی، ان سے پوچھا جائے گا: تم میں کوئی ایسا شخص (صحابی) ہے جس نے رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم کو دیکھا ہے؟ لوگ کہں گے: ہاں، پس (اس ایک صحابی کی صلاح و فضیلت سے) ان کو فتح عطا کر دی جائے گی، پھر کچھ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرے گی، ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی شخص (تابعی) ہے جس نے رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم کے صحابی کو دیکھا ہے؟ لوگ کہیں گے: ہاں، پس ان کو (اس تابعی کی صلاح و فضیلت سے) فتح عطا کر دی جائے گی، پھر کچھ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرے گی، ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص (تبع تابعی) ہے جس نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے صحابیء رسول کو دیکھا ہے؟ لوگ کہں گے: ہاں، پس ان کو (اس تبع تابعی کی صلاح و فضیلت سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔"
(صحیح البخاری باب فضائل اصحاب النبی صلى الله عليه وآله وسلم، حدیث: 3649، صحیح مسلم، باب فضل الصحابۃ: حدیث: 2532)
یعنی صحابۂ کرام کی وجہ سے تین دور خیروفضیلت کے ہوں گے، اس بات کو صراحت کےساتھ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نے اس طرح ایک اور حدیث میں بیان فرمایا:
" میری امت کا بہترین طبقہ وہ ہے جو مجھ سے متصل ہے، پھر وہ جو اس کے بعد اس سے متصل ہے، پھر وہ جو اس سے متصل ہے۔"
(صحیح البخاری، باب فضائل اصحاب النبی صلى الله عليه وآله وسلم، حدیث: 3650، صحیح مسلم، باب فضل الصحابۃ: حدیث: 2533)
آج کل کچھ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بہت غلط الفاظ استعمال کر رہے ہیں، ان کے لیے یہ حدیث ہی کافی ہے۔ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:
"جس نے میرے صحابہ پر سب و شتم کیا، (انھیں جرح و تیقید اور برائی کا ہدف بنایا) تو اس پر الله کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔"
(المعجم الکبیر للطبرانی، 142/12، والسلسلۃ الصحیحۃ: 446/5، حدیث: 2340)
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ قابل احترام ہیں اور ان کی عزت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ انھوں نے اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ اللہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درجات بلند فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔ اور تمام مسلمانوں کو ان کی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور جو ان کے خلاف غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں ان کو ہدایت عطا فرمائے۔آمین۔
Comments
Post a Comment