قرآن بالکل واضح اور راست ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں
الله تبارک و تعالٰی نے، جس کی حمد بے حد ہے اور جس کی توصیف و ثنا کی کوئی انتہا نہیں ، اپنی تعریف خود کی اور فرمایا کہ وہ قرآن عظیم نازل کرنے پر حمد و ثنا کا مستحق ہے۔ اس سے اس کا مقصد اس بات سے مطلع کرنا ہے کہ قرآن کریم کا نزول اس کی سب سے بڑی نعمت ہے، اس لیے کہ یہ قرآن کریم اس دین کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس سے انسانوں کو شرف و کمال حاصل ہوتا ہے اور اس چیز کی طرف بلاتا ہے جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی صلاح و فلاح ہے۔ اس نے اپنے بندوں کو سکھایا کہ وہ قرآن کی عظیم الشان اور جلیل القدر نعمت عطا ہونے پر الله تعالٰی کی حمد و ثنا کس طرح کریں۔ الله تعالٰی نے فرمایا:
"ساری حمد و ستائش الله تعالٰی ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی، ٹھیک اور سیدھی (بغیر کسی افراط و تفریط کے نازل فرمائی۔")
(سورۂ الکھف: 18: آیت نمبر: 1 تا 2)
اہل لغت کا بیان ہے کہ معانی میں کجی بھی اسی طرح ہوتی ہے جس طرح خود اشیاء میں ٹیڑھ پن ہوتا ہے اور قرآن میں کجی کی نفی کئی اعتبار سے ہے:
اس کی آیات میں کوئی تناقُض اور ایک دوسری سے کوئی تضاد نہیں ہے جیسا کہ الله تعالٰی نے خود فرمایا ہے:
" اور اگر یہ الله تعالٰی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ یقینا اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔"
(سورۂ النساء: 4: آیت نمبر: 82)
الله تعالٰی نے قرآن کریم میں جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ توحید و نبوت اور احکام و مسائل ہیں، اور وہ سب کے سب حق اور سچ ہیں، ان میں سے کسی میں بھی قطعا کوئی خلل نہیں۔
(التفسیر الکبیر، للرازی: 64/21)
اسی طرح الله تعالٰی نے قرآن کریم کے بارے میں صاف صاف بتا دیا ہے کہ اس مین کوئی تضاد و اختلاف ہے نہ کوئی ایسا عیب جو انسانی کلام میں ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا:
"قرآن عربی (زبان) میں ہے، کجی والا نہیں۔"
(سورۂ الزمر: 39: آیت نمبر: 28)
یعنی اس کے الفاظ اور معانی میں کسی بھی اعتبار سے کوئی خلل ہے نہ کسی قسم کا نقص۔ ہر بات صاف، واضح اور دو ٹوک ہے اور یہ بے مثل خوبی اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن میں کمال درجے کا اعتدال اور توازن ہے۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن کریم ہر کجی و ابہام سے پاک اور اعتدال و توازن کا مرقع ہے تو اس سے قرآن کریم کی وہ عظمت، اونچی شان اور قدرومنزلت بھی عیاں ہو جاتی ہے جو اسے الله تعالٰی کی بارگاہِ عالی میں نصیب ہے۔
الله تبارک و تعالٰی نے، جس کی حمد بے حد ہے اور جس کی توصیف و ثنا کی کوئی انتہا نہیں ، اپنی تعریف خود کی اور فرمایا کہ وہ قرآن عظیم نازل کرنے پر حمد و ثنا کا مستحق ہے۔ اس سے اس کا مقصد اس بات سے مطلع کرنا ہے کہ قرآن کریم کا نزول اس کی سب سے بڑی نعمت ہے، اس لیے کہ یہ قرآن کریم اس دین کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس سے انسانوں کو شرف و کمال حاصل ہوتا ہے اور اس چیز کی طرف بلاتا ہے جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی صلاح و فلاح ہے۔ اس نے اپنے بندوں کو سکھایا کہ وہ قرآن کی عظیم الشان اور جلیل القدر نعمت عطا ہونے پر الله تعالٰی کی حمد و ثنا کس طرح کریں۔ الله تعالٰی نے فرمایا:
"ساری حمد و ستائش الله تعالٰی ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی، ٹھیک اور سیدھی (بغیر کسی افراط و تفریط کے نازل فرمائی۔")
(سورۂ الکھف: 18: آیت نمبر: 1 تا 2)
اہل لغت کا بیان ہے کہ معانی میں کجی بھی اسی طرح ہوتی ہے جس طرح خود اشیاء میں ٹیڑھ پن ہوتا ہے اور قرآن میں کجی کی نفی کئی اعتبار سے ہے:
اس کی آیات میں کوئی تناقُض اور ایک دوسری سے کوئی تضاد نہیں ہے جیسا کہ الله تعالٰی نے خود فرمایا ہے:
" اور اگر یہ الله تعالٰی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ یقینا اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔"
(سورۂ النساء: 4: آیت نمبر: 82)
الله تعالٰی نے قرآن کریم میں جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ توحید و نبوت اور احکام و مسائل ہیں، اور وہ سب کے سب حق اور سچ ہیں، ان میں سے کسی میں بھی قطعا کوئی خلل نہیں۔
(التفسیر الکبیر، للرازی: 64/21)
اسی طرح الله تعالٰی نے قرآن کریم کے بارے میں صاف صاف بتا دیا ہے کہ اس مین کوئی تضاد و اختلاف ہے نہ کوئی ایسا عیب جو انسانی کلام میں ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا:
"قرآن عربی (زبان) میں ہے، کجی والا نہیں۔"
(سورۂ الزمر: 39: آیت نمبر: 28)
یعنی اس کے الفاظ اور معانی میں کسی بھی اعتبار سے کوئی خلل ہے نہ کسی قسم کا نقص۔ ہر بات صاف، واضح اور دو ٹوک ہے اور یہ بے مثل خوبی اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن میں کمال درجے کا اعتدال اور توازن ہے۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن کریم ہر کجی و ابہام سے پاک اور اعتدال و توازن کا مرقع ہے تو اس سے قرآن کریم کی وہ عظمت، اونچی شان اور قدرومنزلت بھی عیاں ہو جاتی ہے جو اسے الله تعالٰی کی بارگاہِ عالی میں نصیب ہے۔
- Get link
- X
- Other Apps
Labels
The Quran
Labels:
The Quran
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment