نماز نفس کی عزت ہے اولیاء کی قسم
نماز دین کی حرمت ہے اوصیاء کی قسم
نماز حسن شرافت ہے انبیاء کی قسم
نماز قصّہ وحدت ہے کبریا کی قسم
نماز خیرالعمل کی طرف بلاتی ہے
نماز عشق خدا کا ہنر سکھاتی ہے
نماز عـبد کو معبود سے ملاتی ہے
نماز گفتگو اللہ سے کراتی ہے
یہی نماز گناہوں سے بھی بچاتی ہے
نماز قبر تلک ساتھ ساتھ جاتی ہے
نماز وہ ہے جو فاقوں میں مصطفیۖ نے پڑھی
جگا کے اپنے ہی قاتل کر مرتضی نے پڑھی
جو چکیوں کی مشقت میں فاطمہ نے پڑھی
گلے لگا کے زہر کو جو مجتبی نے پڑھی
جو چاہتا ہے کہ عظمت نماز کی دیکھے
میرے حسین کا وہ سجدہ آخری دیکھے
پڑھی نماز جو عابد نے پشت ناقہ پر
ادا کیا جسے باقر نے سختیاں سہہ کر
بیاں کیا جسے جعفر نے بر سر منبر
رکوع میں برسوں رہے جس کے کاظم مضطر
رضا نے لب پہ سریع الرضا سجا کے پڑھی
تـقی نے تـقـوی بوطالبی بتا کے پڑھی
نقی نے نـقـوت باطل مٹا مٹا کے پڑھی
اور عسکری نے خبر آخری سنا کے پڑھی
پس نماز مصّـلہ پہ رو رہا ہے کوئ
امام عصر ہے اور حجت خدا ہے وہی
وہ خیمہ گاہ وہ سیدانیاں وہ ذکر خـدا
جہاں مصّـلہ پہ زینب، رباب اور فـضّـہ
حسن کی بیوہ، رقیہ، سکینہ کا سجـدہ
تمام بیبیاں کرتی تھیں صرف ایک دعا
میرے خدا ہميں منظور قحط آب رہے
حسین اپنے ارادوں میں کامیاب رہے
صـداۓ تـشنہ لـب لا الہ الا اللہ
مگر نماز سے پوچھوں کہ کربلا کیا ہے
حسین اور تیرا رشتہ وفا کیا ہے
کہا نماز نے سن لو میری بقا کیا ہے
بس ایک سجدہ شبیر کے سوا کیا ہے
حسین ہی کا گھرانہ بچا گیا مجھ کو
وہ خود اجڑ گیا لیکن سجا گیا مجھ کو
میان کرب و بلا آہ میں نے کیا دیکھا
گھرا لعینوں میں کنبہ رسولۖ کا دیکھا
بتول زادوں کو بے آب و بے غـذا دیکھا
بہاتا پانی ادھر لشکر جفا دیکھا
نماز پڑھتے رہے دل میں اضطراب نہ تھا
گزر گۓ تھے کئ دن کہ گھر میں آب نہ تھا
بتاؤں کیسے کہ دسویں کو میں نے کیا دیکھا
سحر ہوئ تو شہادت کا سلسلہ دیکھا
کسی کا سینہ تو زخمی کوئ گلا دیکھا
لب فرات علم خون میں بھرا دیکھا
حسین لاشوں پہ لاشے یونہی اٹھاتے رہے
اور اپنی راہ شہادت کی سمت جاتے رہے
کمر رکوع کی طرح تھی مگر حسین اٹھے
کہ اہل ظلم پہ لازم تھا اب کہ تیغ چلے
غضب کی تیغ چلی کوئ روکتا کیسے
امام وقت تھے اللہ کی رضا پہ رکے
اذان عصر سنی دیکھا عالم بالا
کہا حسین نے سبحان ربی الاعلی
آئ صداۓ غیب عبادت کا وقت ہے
اے فاطمہ کے لعل تلاوت کا وقت ہے
جنت ميں صف بندھی ہے امامت کا وقت ہے
بس بس حسین بس یہ عبادت کا وقت ہے
رکھ لی میان میں شہہ والا نے ذوالفقار
وہ ہول باندھے آۓ کماں دار دس ہزار
وہ بے شمار تیغوں کے پھل اور اک حسین
وہ سینکڑوں پیام اجل اور اک حسین
ڈوبے ہوۓ تھے خون میں گیسو حسین کے
تیروں نے چھان ڈالے تھے پہلو حسین کے
نیزے کا بن وہب نے پہلو پہ کیا وار
کاندھے پہ چلی ساتھ زرارہ کی بھی تلوار
ناوک بن کامل کا کلیجے کے ہوا پار
بازو میں در آیا تبر خولی خونخوار
تیغیں اپی ہوئيں جو برابر سے چل گئيں
غش کھا گیا قدم سے رکابیں نکل گئيں
کیوں کر کہوں کہ عرش خدا خاک پر گرا
خیرالنساء کا ماہ لقہ خاک پر گرا
ریتی پہ مصطفیۖ کے جگر کا لہو گرا
سید گرا امام گرا نیک خوں گرا
وہ ظلم ہورہا تھا کہ دنیا الٹتی تھی
جب زیر تیغ گردن شبیر کٹتی تھی
وہ تـند تیغ زينب و زہرا پہ چلتی تھی
ماتم کناں نماز تھی اور خون روتی تھی
جاری تھی یہ صدا کہ نبیۖ کا نواسہ ہوں
امّـاں پلاؤ پانی میں پیاسا ہوں
عجب ادا سے نمازی نماز پڑھ کے گیا
بہن کے سامنے نوک سناں پہ چڑھ کے گیا
نظر میں بھائ کے سجدے کی آب وتاب جو تھی
بہن نے سر کھلے مقتل میں مغربین پڑھی
نظر کے سامنے ہر مہہ لقہ کی لاش رہی
مگر جلے ہوۓ خیموں کی جاء نماز بچھی
غم حسین کی برچھی اٹھا گئ زينب
مگر نماز کی دنیا بسا گئ زینب
Comments
Post a Comment