حضرت مولانا سید اصغر حسین رحمتہ اللہ علیہ جو ”حضرت میاں صاحب“ کے نام سے مشہور تھے، بڑے عجیب و غریب بزرگ تھے۔ ان کی باتیں سن کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے زمانے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
ایک مرتبہ میں ان کی خدمت میں گیا۔ انہوں نے فرمایا: ” کھانے کا وقت ہے، آؤ کھانا کھالو۔“
میں ان کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ گیا
جب کھانے سے فارغ ہوئے تو میں نے دسترخوان کو لپیٹنا شروع کیا تاکہ میں جاکر دسترخوان جھاڑوں تو حضرت میاں صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا:
” کیا کر رہے ہو؟“ ۔ میں نے کہا: ”حضرت دسترخوان جھاڑنے جارہا ہوں۔“
حضرت میاں صاحب نے پوچھا: ”دسترخوان جھاڑنا آتا ہے؟ “
میں نے کہا: ”حضرت ! دسترخوان جھاڑنا کون سا فن یا علم ہے جس کے لئے باقاعدہ تعلیم کی ضرورت ہو، باہر جا کر جھاڑ دوں گا۔“
حضرت میاں صاحب نے فرمایا: ”اسی لئے تو میں نے تم سے پوچھا تھا کہ دسترخوان جھاڑنا آتا ہے یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ تمھیں دسترخوان جھاڑنا نہیں آتا!۔“
میں نے کہا: ” پھر آپ سکھا دیں۔ “ فرمایا: ” ہاں! دسترخوان جھاڑنا بھی ایک فن ہے۔“
پھر آپ نے اس دسترخوان کو دوبارہ کھولا، اور اس پر جو بوٹیاں یا بوٹیوں کے ذرات تھے، ان کو ایک طرف کیا، اور ہڈیوں کو جن پر کچھ گوشت وغیرہ لگا ہوا تھا، اُن کو ایک طرف کیا اور روٹی کے جو چھوٹے چھوٹے ذرّات تھے، اُنکو ایک طرف جمع کیا۔ پھر مجھ سے فرمایا:
” دیکھو! یہ چار چیزیں ہیں۔ اور میرے یہاں ان چاروں کی علیحدہ علیحدہ جگہ مقرر ہے۔ یہ جو بوٹیاں ہیں، ان کی فلاں جگہ ہے۔ بلی کو معلوم ہے کھانے کے بعد اس جگہ بوٹیاں رکھی جاتی ہیں، وہ آکر ان کو کھالیتی ہے۔ اور ان ہڈیوں کےلئے فلاں جگہ مقرر ہے۔ محلے کے کتوں کو وہ جگہ معلوم ہے، وہ آکر ان کو کھالیتے ہیں۔ اور جو روٹیوں کے ٹکڑے ہیں، اُن کو میں اس دیوار پر رکھتا ہوں، یہاں پرندے، چیل کوّے آتے ہیں۔ اور وہ اِن کو اٹھا کر کھا لیتے ہیں۔ اور یہ جو روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں تو میرے گھر میں چیونٹیوں کا بَل ہے، اِن کو اُس بل میں رکھ دیتا ہوں، وہ چیونٹیاں اس کو کھا لیتی ہیں۔“
پھر فرمایا: ” یہ سب اللہ جل شانہ کا رزق ہے، اس کا کوئی حصہ ضائع نہیں جانا چاہئے۔“
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے تھے کہ اس دن ہمیں معلوم ہوا کہ دسترخوان جھاڑنا بھی ایک فن ہے اور اُس کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔
Comments
Post a Comment