السلام علیکم
کیا بسم اللہ کے لئے 786 استعمال کیا جا سکتاہے؟
جواب:
پہلی بات یہ کہ یہ طریقہ ہم کو قرآن و سنت سے کہیں بھی نہیں ملتا بلکہ اس کی کڑیاں کہیں اور جاکر ملتی ہیں مثلا ہندو مت، مجوسی اور یہودیت میں۔۔ اسلام کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہےاور ہم لوگ ہیں کہ بلا سوچے سمجھے جس نے جو بات کر دی اُس کی تقلید شروع کر دی اور میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میری باتوں کی بھی تحقیق کیجیئے گا۔ اور اگر میں غلط ہوا تو ان شا اللہ اپنی اصلاح کروں گا۔
بعض لوگ کہتے ہیں ہم اس لیے ایسا لکھتے ہیں کہ کہیں بسم اللہ کی بے ادبی نہ ہو جائے۔
میرا ان لوگوں سے پہلا سوال یہ ہے کہ بسم اللہ کے ادب کا لحاض نبی علیہ السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ کوئی کر سکتا ہے؟
بلکل نہیں کر سکتا تو آپ علیہ السلام نے جب غیر مسلموں کو دعوتی خط لکھے تو آپ علیہ السلام نے پوری بسم اللہ ہی لکھی تھی نہ کہ آدھی اور نہ ہی اس کی جگہ کوئی اور الفاظ استعمال کیے تو ہمارے لیےسب سے بہترین طریقہ نبی علیہ السلام کی زندگی ہے نہ کہ آج کے کسی بندے کا فہم یا بات، تو آج بھی ہم جب بھی کوئی تحریر لکھیں گے تو وہ بسم اللہ لکھ کر ہی شروع کریں گے نہ کہ۷۸۶ لکھ کر کیوں نہ وہ تحریر ہم کسی کافر کی طرف بھیج رہے ہوں۔ سنت سے ہم کو یہی ملتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتےہیں:
قَالَتْ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّىْٓ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ29
وہ کہنے لگی اے سردارو! میری طرف ایک باوقعت خط ڈالا گیا ہے۔
اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ30ۙ
جو سلیمان کی طرف سے ہے اور جو بخشش کرنے والے مہربان اللہ کےنام سے شروع ہے۔
سورۃالنمل آیت نمبر۲۹،۳۰
اس آیت سے بھی یہی ہم کو درس ملتا ہے کہ چاہے وہ خط کسی کافر کو بھی کیوں نہ لکھنا ہو پوری بسم اللہ لکھ کر ہی شروع کرنا چاہیے۔
Comments
Post a Comment