بنی اسرائیل میں کفل نامی ایک شخص تھا جو ہمیشہ رات دن برائی میں پھنسا رہتا تھا. کوئی سیاہ کاری ایسی نہ تھی جو اس سے چھوٹی ہو. نفس کی کوئی ایسی خواہش نہ تھی جو اس نے پوری نہ کی ہو.
ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ دینار دے کر بدکاری کیلئے آمادہ کیا . جب وہ تنہائی میں اپنے برے کام کے ارادے پر مستعد ہوتا ہے تو وہ نیک بختبید لرزاں کی طرح تھرانے لگتی ہے . اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں. چہرے کا رنگ فق پڑجاتا ہے، رونگٹے کھڑے ہو جاتےہیں ، کلیجہ بانسوں اچھلنے لگتا ہے، کفل حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ اس ڈر ، خوف ، دہشت اور وحشت کی کیا وجہ ہے؟
پاک باطن ، شریف النفس ، باعصمت لڑکی اپنی لڑکھڑاتی زبان سے بھرائی ہوئی آواز میں جوابدیتی ہے . مجھے اﷲ کے عذابوں کا خیال ہے اس زبوں کام کو ہمارے پیدا کرنے والے اﷲ نے حرام کردیا ہے. یہ فعل بد ہمارے مالک ذوالجلال کے سامنے ذلیل و رسول کرے گا. منعم حقیقی محسن قدیمی کی یہ نمک حرام ہے. واﷲ! میں نے کبھی بھی اﷲ کی نافرمانی پر جرات نہ کی. ہائے حاجت اور فقر و فاقہ ، کم صبر اور بے استقلالی نے یہ روز بد دکھایا کہ جس کی لونڈی ہوں اس کے سامنے اس کے دیکھتے ہوئے اس کی نافرمانی کرنے پر آمادہ ہوکر اپنی عصمت بیچنے اور اچھوت دامن پر دھبہ لگانے پرتیار ہوگئی. لیکن اے کفل ! بخدائے لایزال ، خوف اﷲ مجھے گھلائے جارہا ہے. اس کے عذابوں کا کھٹکا کانٹے کیطرح کھٹک رہا ہے. ہائےآج کا دو گھڑی کا لطف صدیوں خو ن تھکوائے گااور عذاب الہٰی کا لقمہ بنوائے گا. اے کفل ! اﷲ کیلئے اس بدکاری سے باز آ اور اپنی اور میری جان پر رحم کر . آخر اﷲ کو منہ دکھانا ہے.
اس نیک نہاد اور پاک باطن اور عصمت بآب خاتون کی پر اثر اور بے لوث مخلصانہ سچی تقریر اور خیر صوابی نے کفل پر اپنا گہرا اثر ڈالا اور چونکہ جو بات سچی ہوتی ہے دل ہی میں اپنا گھر کرتی ہے. ندامت اور شرمندگی ہر طرف سے گھیر لیتی ہے اور عذاب الہٰی کی خوفناک شکلیں ایک دم آنکھوں کے سامنے آکر ہر طرف سے حتیٰ کہ در و دیوار سے دکھائی دینے لگتی ہیں . جسم بے جان ہوجاتا ہے ، قدم بھاری ہوجاتے ہیں، دل تھرا جاتے ہیں . سو ایسا ہی کفل کو معلوم ہوا. وہ اپنے انجام پرغور کرکے اپنی سیاہ کاریاں یاد کرکے رو دیا اور کہنےلگا . اے پاکباز عورت ! تو محض ایک گناہ وہ بھی ناکردہ پر اس قدر کبریائے ذوالجلال سے لرزاں ہے. ہائے میری تو ساری عمر اپنی بدکاریوں اور سیہ اعمالیوں میں بسر ہوگئی میں نے اپنے منہ کی طرح اپنے اعمال نامے کو بھی سیاہ کردیا. خوف اﷲ کبھی پاس بھی نہ بھٹکنے دیا. عذاب الہٰی کی کبھی بھولے سے بھی پرواہ نہ کی. ہائے میرا مالک مجھ سے غصے ہوگا. اس کے عذاب کے فرشتے میریتاک میں ہوں گے. جہنم کی غیظ و غضب اور قہر آلودہ نگاہیں میری طرف ہوں گے. میری قبر کے سانپ بچھو میرے انتظار میں ہوں گے. مجھے تو تیری نسبتزیادہ ڈرنا ڈچاہیے. نہ جانے میدان محشر میں میرا کیا حال ہوگا. اے بزرگ عورت گواہ رہ. میں آج سے تیرے سامنے سچے دل سے توبہ کرتا ہوں کہ آئندہ رب کی ناراضگی کا کوئی کام نہ کروں گا. اﷲ کی نافرمانیوں کے پاس نہ پھٹکوں گا. میں نے وہ رقم تمہیں اﷲ کے واسطے دی اور میں اپنے ناپاک ارادے سے ہمیشہ کیلئے باز آیا. پھر گریہ زاری کے جناب باری تعالیٰ توبہ واستغفار کرتا ہے. اور رو رو کر اعمال کی سیاہی دھوتا ہے. دامن امید پھیلا کردست دعا دراز کرتا ہے کہ یا الہٰا العالمین میری سرکشی سے درگزر فرما. مجھے اپنی دامن عفو می میں چھپالے . میرے گناہوں سے چشم پوشی کر مجھے اپنے عذابوں سے آزاد کر . حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسی رات اس کا انتقال ہوگیا. صبح کو لوگ دیکھتے ہیں اس کے دروازے پر قدرتاً لکھا ہوا ہے. ان اﷲ قد غفر الکفل . یعنی اﷲ تعالیٰ نے کفل کے گناہ معاف کردئیے.
فرماتے ہیں کہ اگر اس کے دروازے پر یہ عبارت نہ لکھی جاتی تو لوگ اس کی لاش کو دفن نہ کرتے اورپتھر مار مار کر حلیہ خراب کردیتے
(جامع ترمذی)
اللہ کی رحمت پر قربان جاوں۔۔اللہ اکبر۔۔نا صرف بخش دیا بلکہ اس کی جنازے اور کفن دفن کا انتظام بھی کروایا .اللہ اکبر
( ''صحیح اسلامی واقعات ''، صفحہ نمبر 106-103)
Comments
Post a Comment