بزرگ کا مطالبہ سن کر وہ حیران رہ گیا۔۔وہاں یہاں اپنا ایک سوال لے کر آیا تھا کہ میں قرآن پڑھتا ہوں مجھے سمجھ نہیں آتا۔۔جب سمجھ نہیں آتا تو پڑھنے کا کیا فائدہ؟
جواب میں بزرگ نے اسے سامنے موجود ایک بالٹی قریبی دریا سے بھر کر لانے کا کہا
وہ شخص حیرانگی سے اٹھا اور بالٹی اٹھائی
اس میں تو کچھ کوئلے ہیں۔۔وہ پھینک دوں؟۔۔شخص نے استفسار کیا
نہیں۔۔ان کوئلوں کو بھی بیچ میں رہنے دو اور اسی طرح ساتھ والے دریا سے پانی لے آو۔
وہ شخص جب بالٹی میں پانی لا رہا تھا اسے احساس ہوا کہ پالٹی کے پیندے میں سوراخ ہیں پانی بہتا جا رہا ہے۔
جب وہ بزرگ کی جھونپڑی تک پہنچا پانی سوراخوں سے بہہ چکا تھا اور بالٹی میں موجود کوئلے بھی اب نرم پڑ چکے تھے۔
اس بالٹی میں سوراخ ہے پانی نہیں یہاں تک آئے گا۔۔۔اس شخص نے بزرگ سے کہا
ایک بار پھر بالٹی بھر کر لاو۔۔بزرگ نے اس کا سوال نظر انداز کیا اور حکم دیا
وہ شخص دوبارہ دریار پر گیا نرم کوئلوں والی بالٹی میں پانی ڈالا لیکن وہی دھات کے تین پات۔۔جھونپڑی تک پہنچے پہنچے پانی گیا اور بالٹی میں موجود کوئلے بھی اب پانی کی وجہ سے نہایت نرم پڑ گئے۔۔
بابا جی نے ایک بار پھر وہی حکم دیا
قریبا پانچ بار بالٹی میں پانی جھونپڑی تک لانے کی ناکام کوشش کی گئی۔
"آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں اس بالٹی میں سوراخ ہیں پانی یہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔آپ بار بار پانی لانے کا حکم دے رہے ہیں پانی یہاں لا سکنا تو درکنار کوئلے بھی بہہ گئے ہیں۔۔" وہ شخص اب غصے میں آ گیا۔
دیکھو نوجوان! پانی بھی یہاں تک پہنچا اور بالٹی میں موجود کوئلے اور ان کی کالک بھی صاف ہو گئی ۔۔۔"بزرگ نہایت نرمی سے گویا ہوئے
اول چیز قرآن سمجھ کر پڑھنا ہے لیکن جب سمجھ نہ بھی آئے تب بھی تلاوت جاری رکھو۔۔۔۔دل میں بے شک کلام نہ ٹھہرے جیسے پانی بالٹی میں نہیں ٹھہرا لیکن تمہارے دل کی کالک ضرور مٹا دے گا۔
اور اس نوجوان کو اس کے سوال کا جواب مل گیا۔۔کیا آپ لوگوں کو جواب ملا؟
Comments
Post a Comment