جب اہل یمن نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ آپ ایک ایسا آدمی بھیج دیجئے جو صرف امیر ہی نہ ہو، بلکہ معلّم بھی ہو، تو اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرمبارک معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ پر پڑی، چنانچہ آپ نے ان کو اشارہ کرکے بلایا اور کہا کہ اے معاذ! تم یمن چلے جاؤ تمہاری وہاں ضرورت ہے، پھر آپ نے تبلیغ سے متعلق کچھ نصیحتیں فرمائی اور ان کو وہاں کا گورنر مقرر فرمادیا اور کہا کہ اے معاذ!
واپسی میں شاید تم مجھ سے نہ مل سکوگے، یہ سننا تھا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے آنسو بہہ پڑے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی آنسو شدت محبت کی وجہ سے بہہ پڑے،
پھر جب روانہ ہونے لگے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سواری پر تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ چل کر نصیحت بلکہ وصیت فرمارہے تھے، اے معاذ! لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، مشکلات پیدا نہ کرنا، انہیں خوشی ومسرت کا پیغام سنانا، ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے انہیں دین سے نفرت ہوجائے۔ اس سفر کا منظر بھی عجیب تھا کہ محبوب پیدل چل رہے تھے اور محب سوار، جی ہاں!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدل تھے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار تھے۔اس وقت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کتنے خوش تھے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگر مجھے فیصلہ کرنے کے لیے قرآن وسنت میں کوئی چیز نہ ملے تو اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جواب سے اتنی خوشی ہوئی تھی، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ کو اس چیز کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے۔
پھراس وقت وہ حالت بھی عجیب تھی، کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے معاذ! ہوسکتا ہے آج کے بعد تم مجھ سے پھر نہ مل سکو، شاید واپسی میں تمہارا گذر میری مسجد اور قبر کے پاس ہی سے ہوگا۔
یہ سننا تھا کہ اس عاشق صادق کے پاؤں سے زمین نکل گئی اور زار وقطار رونے لگے،چنانچہ یہی ہوا کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یمن سے واپس آئے تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرماچکے تھے
(حیات الصحابہ)
واپسی میں شاید تم مجھ سے نہ مل سکوگے، یہ سننا تھا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے آنسو بہہ پڑے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی آنسو شدت محبت کی وجہ سے بہہ پڑے،
پھر جب روانہ ہونے لگے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سواری پر تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ چل کر نصیحت بلکہ وصیت فرمارہے تھے، اے معاذ! لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، مشکلات پیدا نہ کرنا، انہیں خوشی ومسرت کا پیغام سنانا، ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے انہیں دین سے نفرت ہوجائے۔ اس سفر کا منظر بھی عجیب تھا کہ محبوب پیدل چل رہے تھے اور محب سوار، جی ہاں!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدل تھے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار تھے۔اس وقت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کتنے خوش تھے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگر مجھے فیصلہ کرنے کے لیے قرآن وسنت میں کوئی چیز نہ ملے تو اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جواب سے اتنی خوشی ہوئی تھی، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ کو اس چیز کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے۔
پھراس وقت وہ حالت بھی عجیب تھی، کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے معاذ! ہوسکتا ہے آج کے بعد تم مجھ سے پھر نہ مل سکو، شاید واپسی میں تمہارا گذر میری مسجد اور قبر کے پاس ہی سے ہوگا۔
یہ سننا تھا کہ اس عاشق صادق کے پاؤں سے زمین نکل گئی اور زار وقطار رونے لگے،چنانچہ یہی ہوا کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یمن سے واپس آئے تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرماچکے تھے
(حیات الصحابہ)
Comments
Post a Comment